تجزیہ کار کلنگا سینیوِراتنے
بینکاک (آئی ڈی این) – ایشیا پیسیفک کے علاقے میں ترقی کی نگران اقوام متحدہ کی اہم ایجنسی نے علاقے میں ترقی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔
علاقے کے ایک اقتصادی و سماجی سروے، جو یہاں 17 مئی سے 19 مئی کے دوران اکنامکس اینڈ سوشل کمشن فار ایشا اینڈ دا پیسفک یعنی ایشیا اور پیسفک کے اقتصادی و سماجی کمیشن (ESCAP) کے 72ویں سیشنز میں پیش کیا گیا، کے مطابق چوں کہ عالمی معیشت کا مرکز مشرق کی طرف حرکت کرتا آ رہا ہے، وہ وقت آ گیا ہے کہ ایشیا-پیسفک ممالک اس ترقیاتی ماڈل کو اپنا لیں جس میں زیادہ تر انحصار ملکی اور علاقائی طلب پر کیا گیا ہے۔
یہ واضح کرتے ہوئے کہ برآمدات پر منحصر ترقی پر انحصار کرنا بے کار ہے، ESCAP نے دیہی اور شہری علاقوں میں ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی رابطوں میں بہتری کے ذریعے دیہی زرعی و صنعتی ترقی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
“ان چیلنجز سے ملکی وسائل کا استعمال بڑھا کر نمٹا جا سکتا ہے بشرطیکہ خطے میں ٹیکس کی غیر معمولی اہلیت کو استعمال میں لایا جائے۔ اس صلاحیت سے کام لینے کے لیے ممالک کو ایسی ٹیکس تعطیلات اور استثناوٗں سے بچنا ہو گا جن سے سرمایہ دار طبقے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔” ان خیالات کا اظہار ESCAP کی ایگزیکٹو سیکرٹری، ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنے افتتاحی خطاب میں کیا۔
“ٹیکسیشن کے نظام میں ترقی سے عدمِ مساوات پر قابو پانے اور پائیدار سرمایہ کاری کی طرف بہاؤ میں مدد ملے گی۔” انہوں نے اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ خطے میں بہت صلاحیت ہے کہا کہ “اس سے ماحول میں پائیداری لانے کے لیے سرمایہ کاری حاصل کی جا سکے گی” کیوں کہ اس میں قریباً 100 ٹریلین ڈالرز کی عالمی لیکویڈیٹی اور 3 ٹریلین ڈالرز کے لگ بھگ ریاستی سرمایہ کاری فنڈز موجود ہیں۔
پچھلے سال 4.6 فی صد سے سال 2017 میں 5 فی صد تک کے معمولی اضافے کی پیش گوئی کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ ایشیا پیسیفک کا اقتصادی نقطہ نظر وسیع تناظر میں مستحکم ہے۔
ESCAP کا کہنا ہے کہ یورپ، جاپان اور ریاستہائے متحدہ میں برآمدات پر منحصر ترقی کے غیر یقینی ہونے کے پیشِ نظر ملکی طلب اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے ترقیاتی حکمتِ عملی میں یہ ایک تبدیلی ہے جس کے مطابق خطے کی مستقبل کی معیشتیں چلیں گی۔
حمزہ علی ملک، ESCAP کے میکروایکنامک پالیسی اینڈ انالسز سیکشن کے چیف نے آئی ڈی این-آئی این پی ایس کو ایک انٹرویو میں کہا کہ “ہم نے اپنے سروے میں جن بنیادی مسائل کو اجاگر کیا ہے ان میں سے ایک کم معاوضہ ہے۔ اگر خطہ پائیدار ترقی چاہتا ہے تو اسے اپنی پیداواری صلاحیتیں بڑھانا ہوں گی (اور) حقیقی معاوضے کی بلند سطح میں تعاون کے لیے آپ کو بلند پیداواری سطح درکار ہے۔”
یہاں سیشن میں ایک اعلی سطحی بحث میں، وسیع اتفاق ہوا کہ حکومتوں کو اضافہ شدہ ٹیکس آمدن کی صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری، جس سے طویل المیعاد پیداواری صلاحیت بڑھے گی، کر کے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کہ مالی منصوبہ ناکام رہا ہے اور مالیاتی منصوبے کو اب مزید اہمیت دیے جانے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر سُپاچائی پنِیتچِپاکڈی، جنیوا میں قائم یو این سی ٹی اے ڈی کے سابق سربراہ، کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں عالمی تجارت کے زوال پذیر ہونے سے مالیاتی منصوبے اب غیر فعال ہو گئے ہیں اور اب ایشیا کو سستی مزدوری اور برآمدات پر منحصر ترقیاتی منصوبوں سے نجات کی ضرورت ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈی اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو ترقیاتی مسائل خصوصاً بین الاقوامی تجارت – ترقی کا اہم ترین ذریعہ – سے تعلق رکھتا ہے۔
ڈاکٹر سُپاچائی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ “جیسا کہ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے، ہمارا میلان آمدنی کے منصوبے کے پہلو کو نظر انداز کرنے کی طرف ہے۔ “(پیداواری صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ) ہمیں آمدنی کے منصوبے کو مجموعی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے … جب ہم پیداواری صلاحیت میں اضافے کی بات کریں تو ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم اس کو کس طرح سے آمدنی میں اضافے سے بدلیں۔ بہت سے ممالک اپنی پیداواری صلاحیت کی سطح میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن آمدنی کی سطح پیچھے رہ گئی ہے۔” کہا گیا کہ یہی وجہ ہے کہ سرمائے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باوجود ملکی کھپت میں اضافہ نہیں ہوا۔
چُوآ ٹوٹو، کریباٹی کے وزیر خزانہ و اقتصادی ترقی، نے واضح کیا کہ پیداواری صلاحیت پر منحصر اقتصادی ترقی ممکن ہے اور یہ کہ پیسیفک میں ان کا چھوٹا سا الگ تھلگ جزیرہ اس بات کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہا ہے کہ یہ کوئی “نہ پورا ہونے والا خواب” نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ کریباٹی کی حکومت نے احساس کیا کہ ان کی تھوڑی سی افرادی قوت کے علم اور مہارت کی سطح کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے اس نے تعلیم اور صحت کی خدمات میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سے ناریل کا کھوپرا، جسے حکومت بر آمد کرنے کے لیے دیہی کسانوں سے خریدتی ہے، کی قیمت دگنی ہو گئی ہے۔
ٹوٹو نے قائل کیا کہ “شمولیتی منصوبوں سے دیہی معیشت کو ترقی دی جانی چاہیے۔ “کھوپرے کی خریداری کے لیے سبسڈیز، پیداوار بڑھانے اور دیہی کسانوں کے شہروں کی طرف ہجرت کرنے کی بجائے ان کو ان کی زمینوں پر ہی رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔”
تھائی لینڈ کے خارجہ امور کے مستقل سیکرٹری، ویتاواس سری ویہوک، کے مطابق خاص طور پر الگ تھلگ دیہی اسکولوں کے طالب علموں کی ڈیجیٹل خواندگی میں اضافہ مستقبل میں پیداواری ترقی کے لیے آبادی کو تعلیم دینے کی اہم حکومتی پالیسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھائی بادشاہ کے ‘کفیلی معیشت’ کے ماڈل، جسے دیہی علاقوں میں متعارف کرایا جا رہا ہے، کی بنیاد “اندر سے ہی مضبوطی اور بحالی کے لیے مقاموں لوگوں کے ساتھ کام کرنا” ہے۔
ارجن بہادر تھاپا، جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی ایسوسی ایشن سارک کے سیکرٹری جنرل نے میٹنگ میں بتایا کہ “جنوبی ایشیا میں زیادہ تر کسان چھوٹے کسان ہیں (اور) ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ہمیں پیداوار بڑھانے کے لیے چھوٹے کسانوں کو تعلیم دینے اور ٹیکنالوجی سے انہیں لیس کرنے کی ضرورت ہے۔”
یہ واضح کرتے ہوئے کہ زیادہ تر تربیتی ادارے شہری علاقوں میں واقع ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ سے سیکھتے ہوئے، کسانوں کو تعلیم دینے کے لیے سارک ‘فارم ریڈیو’ کے استعمال کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کیوں کہ یہ ان کو تعلیم دینے کی سستی راہ ہے۔
ملک کے خیال میں 2030 کے لیے پائیدار ترقی کے اہداف، جن کو اقوام متحدہ کا نظام فروغ دے رہا ہے، ترقی کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ “آئیے پہلے اقتصادی ترقی کریں اور پھر سماجی و ماحولیاتی مسائل حل کریں” کہنے کی بجائے اب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ “نہیں، ان تینوں میں بیک وقت توازن پر نگاہ رکھیں۔” “یہ ترقی کے بارے میں آپ کے سوچنے کے انداز میں تبدیلی ہے۔”
“یہ صرف اقتصادی ترقی یا پیداواری پہلو پر توجہ مرکوز کرنے سے ہٹ کر یہ کہنا ہے کہ انسانی بہبود اقتصادی ترقی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔” ملک نے کہا۔ “جی ہاں، یہ (اقتصادی ترقی) اہم ہے لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ یہ وہ ہدف ہے جس کو ساری اقوام متحدہ اب حاصل کرنے میں لگی ہے۔” [آئی ڈی این-اِن ڈیپتھ نیوز – 19 مئی