تجزیہ از نعیم الحق
بھولا ( آئی ڈی این) – بنگلہ دیش گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی) کے اخراج سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے عالمی حرارت کے اثرات سے بدترین طور پر متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پر شدید موسمی واقعات، ٹراپیکل طوفانی آندھی، شدید سیلاب، طوفانی بارش اور دریائی کٹاؤ، شدید گرمی کی لہریں اور وسیع رقبہ زمین میں غیر متوقع قحط سالی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس ملک کے ساحلی علاقے سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، اونچی لہروں اور زمینی علاقہ میں بڑھتی ہوئی کاشتکاری کے مواقع کی تباہی کا سبب بننے والی نمکین پانی کی خلل اندازی جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش کے ساحل پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کا اثر ظاہر ہو چکا ہے اور ماہرین اس بات کی پیش گوئی کررہے ہیں کہ اگر فوری طور پر مناسب اقدام نہ اٹھایا جائے تو اس کے نتیجہ میں یہ صورتحال تباکُن ثابت ہو سکتی ہے۔
بازگشتی کو بڑھانے کی کوششوں کے باوجود، موسمی دشواریاں بڑے اقتصادی نقصانات، اقتصادی ترقی میں کمی اور غربت میں کمی کی طرف سست پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سلسلہ میں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ غیر سرکاری تنظیمیں ( این جی اوز) بنگلہ دیشی حکومت کے تعاون سے بحران، خصوصاً ساحلی علاقوں کو درپیش غذائی سلامتی جیسے سب سے بڑے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی پی سی) کے مطابق، اس بات کا انداز لگایا گیا ہے کہ 2050 تک 1990 کی پیداواری سطح کے مقابلہ میں، چاول کی پیداوار میں 8 فیصد اور گیہوں کی پیداوار میں 32 فیصد کمی واقع ہوگی۔ یہ دونوں بنگلہ دیش کی اہم غذائیں ہیں۔
بنگلہ دیش میں موجود اہم غیر سرکاری تنظیموں میں سے ایک تنظیم، دی کاسٹل اسوسی ایشن فار سوشل ٹرانسفارمیشن ٹرسٹ ( سی او اے ایس ٹی)، جو کہ 35 سال سے زیادہ عرصہ میں ساحلی علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہے، ذریعہ معاش کے سلسلہ میں، پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے میںسب سے آگے ہے۔
ساحلی ضلع بھولا میں سطح سمندر سے بمشکل 30 سینٹی میٹر اونچائی پر واقع ایک دور افتادہ ساحلی ضلع چار فاسن کے سی او اے ایس ٹی کے ایک اعلی اہلکار، محمد ظاہر الاسلام نے آئی ڈی این-آئی این پی ایس کو بتایا کہ ‘‘یہاں موجود مورثی کاشتکاری خطرہ کا شکار ہے جو کہ زیادہ تر نمکین پانی کی مداخلت کاری کی وجہ سے ہے۔ اعلیٰ درجہ کی نمکینیت کئی پودوں کے لیے زہریلے اثرات کی حامل ہے اور اب ہم فصلوں کی کاشت کے متبادل طریقوں کو تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔’’
تاہم، سی او اے ایس ٹی کی طرف سے کوسٹل چار فاسن میں نافذ کیا جانے والا انٹگریٹیڈ ٹیکنالوجی ایکسٹینشن پروگرام ( سی آئی ٹی ای پی) 2003 سے کسانوں میں موسمی تبدیلی کی صورت میں فصلوں کی پیداوار میں بہتری لانے کے لیے متبادل کاشتکاری کے طریقوں کے ذریعہ کسانوں کی مدد کر رہا ہے۔
اس کے گنجائش بڑھانے کے پروگرام کے ایک حصّہ کے طور پر سی آئی ٹی ای پی، مختلف قسم کی سبزیاں اگانے کے لیے کاشتکاروں کو تقریبا ایک میٹر چوڑی اور 90 سینٹی میٹر اونچی منڈیریں استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کیاریوں کے درمیان پائے جانے والے گڑھوں میں مچھلیوں کو افزائش کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ پودوں کی آبپاشی کے لیے پانی میگھنا دریا سے لائے جانے والے تازہ پانی سے بھری ہوئی قریبی جھیلوں سے آتا ہے۔
اس تکنیک کے استعمال کا فائدہ یہ ہے کہ یہ طوفان، طوفانی لہروں اور سیلاب کے دوران فصلوں کو زیر آب ہونے سے بچاتی ہے اوراعلی نمکینیت کو روکتی ہے۔
چار فاسون میں سی آئی ٹی ای پی منصوبہ کے رابطہ کار، میزان الرحمن نے آئی ڈی این-آئی این پی ایس کو بتایا کہ ‘‘ یہ نچلی سطح والی زمینیں خلیج بنگال کے سنگم پر سمندر سے تقریبا 30 کلو میٹر دوری پر واقع ہیں اور یہ سمندری لہروں اور طوفانی لہروں کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس لیے ان کے تحفظ کےلیے نئی کاشتکاری کی تکنیک تیار کی گئی ہے۔’’
اس متبادل کاشتکاری کے طریقہ کار سے فائد اٹھانے والے ایک مقامی کاشتکار، اختر الحسین کے مطابق، ‘‘ہموار زمین پر دیسی کاشتکاری کا طریقہ اس بات کو ظاہر کرتاہے کہ یہ اب مزید قابل اعتبار نہیں رہا، کیونکہ نمکین پانی کی مداخلت کاری فصلوں نقصان پہنچاتی ہے… نئی کاشتکاری کے طریقہ کار نے نہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ یہ موسمی خطرات کے جوکھم سے پاک ہے، بلکہ یہ مچھلی پالن کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے جو کہ انفرادی کسانوں کو اضافی آمدنی کا ذریعہ ہے۔
کاشتکاری کا نیا طریقہ کار چار فاسون میں بہت ہی مقبولیت حاصل کر رہا ہے جہاں پر 9,000 سے زائد کاشتکار اسے استعمال میں لا رہے ہیں۔ کئی کسانوں نے خود امدادی گروپ تشکیل دئے ہیں، جن میں ممبران ایک دوسرے کے تجربات کے اشتراک کے ذریعہ فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ حکومت مطابقتی اقدامات جیسے ماہی گیری کی معاونت کر رہی ہے جو کہ اضافی آمدنی پیدا کرتے ہیں۔
چار فاسون کے سرکاری زرعی محکمہ کےایک مقامی اہلکار، منظور الاسلام نے، آئی ڈی این- آئی این پی ایس کو بتایا کہ ابتداً دشواریاں بہت زیادہ تھیں، کیونکہ کسانوں نے نئے طریقوں کو اپنانے سے انکار کردیا تھا، لیکن چونکہ اب انہیں اس طریقہ کے فوائد کا پتہ چل گیا ہے، اس لئے وہ اس کے قائل ہوگیے ہیں۔
ہموار زمین میں فصلوں کے نقصان تباہ کن ہوتے ہیں۔ صادر احمد نے بتایا کہ تین سال قبل، 5,570 ہیکٹر رقبہ والی زمین کی فصل چار مہینے تک سمندری سیلاب کی وجہ سےخراب ہو گیی تھی۔ اس سال کے اوائل میں، رضا پور اور کاٹیا میں زمین کا ایک بڑا حصّہ دریائی کٹاؤ کی نذر ہوگیا۔ بڑے علاقوں میں کاشتکاری بری طرح متاثر ہوئی۔’’
ساحلی بنگلہ دیش میں سمندری سطح کا بڑھ جانا بالکل ظاہر ہے۔ تخمینے اور منصوبے یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ساحلی علاقہ کا 97.1 فیصد علاقہ اور ساحلی بنگلہ دیش میں رہنے والے 3.5 کروڑ لوگوں کو متعدد موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا سامنا ہے۔
موسمیاتی زد پذیری کا اعشاریہ ( سی سی وی آئی) برائے سال 2014 جو بعد کے 30 سالوں میں آبادی کی حسّاسیت، ممالک کی طبعی زد پذیری اور حکومت کی موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مطابقت کی گنجائش کا تخمینہ لگاتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرہ سے دوچار اوّلین معیشت کے طور پر بنگلہ دیش کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سی او اے ایس ٹی اور ایکویٹی اینڈ جسٹس ورکنگ گروپ ( ای جے ڈبلیو جی) بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور خطرات کی زد پذیری پر ایک مشترکہ مطبوعہ کتاب کے مطابق، عالمی طور پر، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کلوروفلورو کاربن کا فضا میں اخراج سالانہ 5 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے۔
سی او اے ایس ٹی ٹرسٹ کے انتظامی ڈائریکٹر، اور اس مشترکہ طور پر تصنیف کردہ کتاب کے مصنفین میں ایک مصنف نے آئی ڈی این- آئی پی این ایس کو بتایا کہ’’ موسمیاتی تبدیلی بنگلہ دیش کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے اور اب قیاسی تجزیہ کے لیے کوئی وقت نہیں ہے۔ ہم اس بات کا مشاہدہ کر چکے ہیں کہ نقصانات اور ‘سلو پوائزن’ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
بدترین صورتحال کا سامنا کرنے کی تیاری کے لیے، ہم مقامی کمیونٹی کے لیے گنجائشوں کی تعمیر پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ پہلے سے بوجھل شہری اقتصادیت پر داخلی نقل مکانی کے نتیجہ میں مزید بوجھ نہ پڑے۔ ان گنجائشوں میں، نمک کو برادشت کرنے والی فصلوں کا فروغ، نئے کارخانوں کے قیام کے ذریعہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا اور ایسی سرگرمیوں کو بڑھانا شامل ہے، جو تباہ کن زد پذیریوں کو کم کر سکے۔
بنگلہ دیش رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( بی آر آر آئی) کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر جیبان کرشنا بسواس نے آئی ڈی این-آئی این پی ایس کو بتایا کہ یہ ادارہ ‘‘نازک ماحول میں مختلف قسم کے قابل تطبیق طریقہ کار کی تیاری میں مصروف ہے۔ موسم سے متعلق واقعات کی بدلتی ہوئی کثرت اور شدّت کی وجہ سے، اب ہم جدید تر ٹیکنالوجیوں کو کاشتکاری میں اپنانے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں تاکہ دشواریوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔’’
آٗی ڈی این – آئی این پی ایس سے گفتگو کرتے ہوئے، بنگلہ دیش سینٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز ( بی سی اے ایس) کے ایکزیکیٹیو ڈائریکٹرڈاکٹر عتیق الرحمن کہا کہ ‘‘بنگلہ دیش میں سمندری سطح میں اضافہ واضح ہو چکا ہے اور مختلف مطابقتی اقدمات اس کی واضح نشانیاں ہیں۔ ماحول، قدرتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے مباحثہ میں اپنے پہل کارانہ کردار اور خدمات کے لیے معروف، ڈاکٹر عتیق الرحمن نے مزید بتایاکہ ‘‘اس بات کا اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اب تک سمندری سطح میں 20 تا 28 سینٹی میٹر کا اضافہ واقع ہو چکا ہے۔’’
انہوں نے کہا کہ آئی پی سی سی نے اس صدی کے آخر تک سمندری سطح میں 86 سینٹی میٹر تک اضافہ کی پیش گوئی کی ہے، ‘‘ لیکن حالیہ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انٹارٹیکا تیزی کے ساتھ پگھل رہا ہے، جو کہ واضح طور پر ایک بہت بڑی تشویش کی بات ہے۔ یہ نئے اعداد و شمار پچھلی پیشن گوئیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ اس صدی کے اختتام تک یہ ایک میٹر سے زیادہ ہو گا۔ اور یہ اضافہ گزرتے وقت کے ساتھ ہر ایک جگہ کے لیے لازمی طور پر یکساں نہیں ہے۔
بنگلہ دیش کے ساحلی خطوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے متعلق پوچھے جانے پر مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر عینن نشاط نے ان ماہرین کے ساتھ اپنی نا اتفاقی ظاہر کی جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ، بین الاقوامی نقل مکانی ابھی شروع ہو چکی ہے۔
انہوں نے آئی ڈی این- آئی این پی ایس کو بتایا کہ چار فاسون میں زمینی تحفظ کی پشتہ بندی 14 فیٹ ( 4 میٹر سے زیادہ) ہے [ بنگلہ دیش میں اس کے 700 کلو میٹر طویل ساحلی علاقہ میں اس سے مماثل پشتہ بندیاں موجود ہیں]، جبکہ طوفانی یا سمندری لہروں کا خطرہ تقریباً 3 فیٹ ( 90 سینٹی میٹر) ہے۔ اس لیے یہ ایک مضحکہ خیز بات ہوگی کہ لوگ خوف کی وجہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں۔’’
انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘میں اس بات سے متفق ہوں کہ بھولا ایک ایسا علاقہ ہے جو کہ یقینی طور پرموسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوا ہے۔ اس صدی کے اختتام پر عالمی حرارت کے0.8 ڈگری سیلشیس کا ااضافہ ہونے کی پیش گوئی کی گیی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثر کا ابھی آغاز ہوا ہے اور سمندری سطح میں اضافہ کے اشارات ملے ہیں، ساحلی بنگلہ دیش کے کئی حصّوں میں سمندری سطح بڑھنے کی اطلاع ملی ہے۔’’
پروفیسر نشاط کے مطابق، فی الوقت بنگلہ دیش ہماری طرف سے کی جا رہی پیش گوئی سے کئی 85 سال آگے ہے۔ پچھلے دوسالوں کے دوران، گرین ہاؤس گیس کا اخراج قابو میں ہے اور بنگلہ دیش اس کے لیےپوری طرح تیار ہے۔ اب ہمیں موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملیوں میں بہتری لانے کے لیے مزید فنڈ کی ضرورت ہے۔’’ [آئی ڈی این- اِنڈپت نیوز– 22 مئی 2016