از جولیا زمرمین*
وینیا ( آئی ڈی این)– جنگ اور اس کے ساتھ منسلک خطرات پر سوچتے وقت غالباً سب سے پہلے ذہںوں میں جو خیال پیدا ہوتا ہے وہ میدان جنگ میں ہونے والی اموات اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی انسانی زندگی کے شدید نقصان سے متعلق ہوتا ہے؛ تاہم جنگ کے شکار ٓصرف فوجی جوان ہی نہیں ہوتے۔ عام لوگ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں، اور یہ اثرات خصوصی طور پر عورتوں کے لیے تباہ کُن ہو سکتے ہیں۔
اے سی یو این ایس یو این وینیا کانفرنس (ACUNS UN Vienna conference) میں، اقوام متحدہ کے دفتر برائے امور ترک اسلحہ/ یو این او ڈی اے (UNODA) وینیا دفتر، کے سربراہ اسماعیل ایچ، بالا نے کہا کہ بین الاقوامی برادری پر اس بات کی ذمہ داری عائد ہے کہ وہ تصادم سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے عورتوں کو درپیش منظم تشدد کوحل کرنے پر توجہ دیں۔ انہوں نے 2008 میں اقوام متحدہ کے مشن برائے عوامی جمہوریہ کانگو (UN Mission to the Democratic Republic of Congo) کے ڈپٹی فورس کے کمانڈر میجر پیٹرک گیمارٹ کے حوالہ سے کہا کہ : “اب جدید جنگوں اور تصادم میں ایک فوجی سے زیادہ ایک عورت ہونا زیادہ خطرناک ہے۔”
عصر حاضر کے ایامِ جنگ والے حقائق کے تناظر میں، بالا نے کہا کہ بین الاقوامی تنظیمیں، فوجیں، وکلاء اور غیر سرکاری تنظیمیں اس سابقہ حالت کو تبدیل کرنے کے لیے جاں توڑ کوششیں کر رہی ہیں۔
مثلاً آسٹیرین ڈیفینس اکیڈمی کے انسٹی ٹیوٹ آف پیس سپورٹ اینڈ کانفلیکٹ مینیجمینٹ (Institute of Peace Support and Conflict Management) کے سربراہ بریگیڈیئر جنرل ڈاکٹر والٹر فائٹنگر فوج میں جنسی مساوات کے حامی کار ہیں۔ انہوں نے اے سی یو این ایس (ACUNS) کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اب وقت بدل گیا ہے:”فوج میں عورتیں آج کل آسٹیریائی فوج میں ایک معمول کی بات ہے۔”
درحقیقت، آسٹیریا نے بیس سال قبل ہی زنانہ فوجیوں کو شامل کرنا شروع کیا تھا اور آج اس کے 1500 فوجی دستوں میں سے تقریباً 600 دستے عورتوں پر مشتمل ہیں۔ بریگیڈیئر فائٹنگر کے مطابق نیشنل ڈیفینس اکیڈمی جنسی مساوات جیسی اقدار میں لوگوں کی ذہنیت تبدیل کرنے تعلق سے دیگر اداروں کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تصادم سے متعلق جنسی تشدد کے خاتمہ اور امن کی بحالی کے لیے، فوجی کارروائی اور امن کے عمل دونوں میں خاتون قائدین کی شمولیت بے حد ضروری ہے: “عورتیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے خیالات اور تصورات بھی جامع سلامتی کا ایک اٹوٹ حصّہ ہیں”۔
کرونا پراجولی جو کہ ایک نیپالی وکیل اور یو این او ڈی اے (UNODA) کے زنانہ اسکالرشپ برائے امن عالمی جنوبی پروگرام (Women Scholarship for Peace: Global South program) کی فارغ التحصیل ہیں، وہ بھی ما بعد تصادم امن کی گفت و شنید کے عمل میں عورتوں کے کردار کی زبردست حامی ہیں۔ موصوفہ نیپال میں، تصادم سے متعلق تشدد کی شکار عورتوں کے لیے مفت قانونی نمائندگی کی پیشکش کے لیے ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔
نیپال میں ہونے والے مسلح تصادم ( 1996 تا 2006) کے نتیجہ میں بہت ساری عورتیں تشدد خصوصاً جنسی تشدد کا شکار ہوئی تھیں۔ تشدد کی شکار ان عورتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے پراجولی کو پیش آنے والی سب سے اہم دشواری یہ ہے کہ کئی سال گزر جانے کے باوجود، عورتیں اب بھی اپنے ماضی کے تلخ تجربات کے تعلق سے کھل کر بات کرنے سے خوف محسوس کرتی ہیں۔ بہت سے دیگرممالک کی طرح، نیپال میں بھی جنسی تشدد کو حقارت کی نگاہ سےدیکھا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں اس کی شکار عورتوں میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو سنانے کے تعلق سے منفی سماجی ردعمل کا خوف پایا جاتا ہے۔
وینیا میں موجود زونٹا انٹرنیشنل (Zonta International) کی اقوام متحدہ کی نمائندہ انجبورگ گیئر نےتصادم کے دوران جنسی تشدد خصوصاً عصمت دری کے استعمال کو مزید نمایاں انداز میں پیش کیا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عصمت دری جنگ سے متعلق ایک سب سے زیادہ عام اور نقصان دہ گھناؤنی حرکت ہے، انہوں نے آگے کہا کہ عورتوں اور معاشرے پر اس کے سنگین عواقب مرتب ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ، تصادم کے دوران، عصمت دری کی حد اور شدّت صحت سے متعلق شدید کیفیات جیسا کہ فرجی ناسور وغیرہ پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔
ایام جنگ کے دوران عورتوں کو درپیش مزید ایک خطرہ انسانی تجارت ہے۔ یو این او ڈی سی (اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرم)/ UNODC (Nations Office on Drugs and CrimeUnited ) کے شعبہ برائے پالیسی کا تجزیہ اور امور عامہ کی ڈائریکٹر جان لوک لیماہیو نے تنظیم کی بلیو ہارٹ کیمپین (Blue Heart Campaign) کے ذریعہ انسانی تجارت کے مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ جملہ انسانی تجارت کے شکار لوگوں میں عورتوں کی شرح 71 فیصد ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ اکثر تصادم کے ایام کے دوران، انسانی تجارت کو غریب معیشت والے ممالک میں آمدنی کی پیدوا ر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جنسی تشدد، انسانی تجارت اور تصادم اور جنگ سے جڑے جنس سے متعلق دیگر مسائل سے نپٹنے کے لیے، 3 پی (P) والی مثال ایک فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہے: پریوینشن (Prevention) یعنی روک تھام ، پروٹیکشن (Protection) یعنی تحفظ اور پروسیکیوش (Prosecution) یعنی قانونی کارروائی۔ سیاسی قیادت میں عورتوں کے کردار کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ پیراجولی نے بتایا کہ نیپال کی پارلیمنٹ میں اب 33 فیصد عورتیں ہیں، جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
یو این او ڈی اے (UNODA) کی خواتین اسکالر شپ برائے امن : عالمی جنوبی پروگرام ( Women Scholarship for Peace: Global South program) کی ایک فارغ التحصیل طالبہ کے طور پر پیرا جولی نے ترک اسلحہ اور ترقی سے متعلق مسائل کے تعلق سے کلیدی تصوراتی اور عملی پہلوؤں پر گہری تربیت حاصل کی ہے۔ جیسا کہ یو این او ڈی اے (UNODA ) وینیا کی سربراہ بالا نے بتایا کہ اس قسم کی تربیت ایک متصل، مربوط اور سیاق و سباق سے متعلق مخصوص ردعمل کا ایک حصّہ ہے، جو پیرا جولی جیسے نوخیز لوگوں میں تبدیلی کے لیے ایک عمل انگیز عامل بننے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ لوگ جنگ اور تصادم کے سیاق و سباق میں معافی کو للکارتے ہیں اور عورتوں کے انصاف کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔ [آئی ڈی این- اِنڈپت نیوز- 26 جنوری 2018]