غریب ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی کسوٹی کو تبدیل کرنے گلوبل فنڈ ٹو فائٹ ایڈز (ایڈز سے لڑنے کے لیے عالمی فنڈ) سے اپیل
از جے سی سریش
ٹورنٹو ( آئی ڈی این)– اس سال کی یوم عالمی ایڈز مہم – میری صحت، میرا حق – میں شدّت لائی گئی، ایڈز ہیلتھ کیئر فاونڈیشن(اے ایچ ایف) نے گلوبل فنڈ ٹو فائٹ ایڈز، ٹیوبرکلوسس اینڈ ملیریا (ایڈز، تپ دِق اور ملیریا سے لڑنے کے لیے عالمی فنڈ) سے مطالبہ کیا ہے کہ فنڈ کی امداد کی اہلیتی کسوٹی کے ایک حصّہ کے طور پر، فی کس مجموعی قومی آمدنی ( جی این آئی) کا استعمال ختم کیا جائے اور اس طرح غریب ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک کو روک دیا جائے۔
لاس اینجلس میں قائم اے ایچ ایف (ایڈز ہیلتھ کیئر فاونڈیشن) 39 ممالک، بشمول آفریقہ، ایشیا، یوروپ، لاطینی امریکہ اور کریبین اور ممالک متحدہ امریکہ میں 833,000 سے زائد مریضوں کو ایچ آئی وی کی نگہداشت فراہم کرنے والی، سب سے بڑی غیر منافع بخش ایچ آئی وی تنظیم ہے۔
یہ مہم صحت کے حق اور دنیا بھر میں اپنے حقوق کے استعمال میں لوگوں کو درپیش دشواریوں کا پتہ لگانے پر اپنی اپنی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ مہم کا آغاز کرتے ہوئے یواین ایڈز کے انتظامی ڈائریکٹر مائیکل سدبے نے کہا :”بلا تفریق عمر، جنس، جائے رہائش، یا یہ کہ وہ کس سے محبت کرتے ہیں، تمام لوگوں کو صحت کا حق حاصل ہے۔ چاہیے ان کی صحت کی ضروریات کچھ بھی ہو، ہر ایک کو دستیاب اور رسائی کے قابل، کسی قسم کی تفریق سے پاک اور اچھے معیار والے صحت کے حل کی ضرورت ہے۔”
1966 کے بین الاقوامی کنوینشن برائے اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق میں، صحت کے حق کو جسمانی اور ذہنی صحت کے اعلی ترین قابل حصول معیار سے استفادہ کے ہر ایک شخص کے حق کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ اس میں ناقص صحت کے تدارک اور معالجہ، اپنی صحت سے متعلق خود فیصلہ کرنے اور عزت و احترام سے برتاؤ کیے جانے کا تمام لوگوں کا حق شامل ہے۔
یہ مہم لوگوں کو اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ صحت کا حق معیاری صحت کی خدمات اور دوائی تک رسائی سے کافی زیادہ ہے، یہ کہ اس کا انحصار وسیع تر اقسام کی اہم یقین دہانیوں بشمول معقول حفظان صحت کے انتظامات اور گھر، کام کی صحت مند کیفیات، ایک صاف ماحول اور انصاف تک رسائی پر ہے۔
اگر کسی شخص کے صحت کے حق کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے تو وہ اکثر مؤثر طور پر بیماریوں کے تدارک اور ناقص صحت کے معالجہ یا نگہداشت تک رسائی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ سماج کے سب سے پس ماندہ لوگ بشمول جنسی کارکنان، منشیات کے انجیکشن لینے والے لوگ، مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے والے مرد، جیلوں میں مقید لوگ اور مہاجرین کو اکثر اپنی صحت کے حق تک بہت ہی کم رسائی حاصل ہوتی ہے اور وہ اکثر ایچ آئی وی کا شکار ہونے کے درپے ہوتے ہیں۔
پائیدار ترقی کے اہداف ( ایس ڈی جیز) کا اکثر حصّہ کسی نہ کسی طرح صحت سے منسلک ہوتا ہے۔ ان اہداف، بشمول 2030 تک عوامی صحت کے ایک خطرے کے طور پر ایڈز کی وبا کے خاتمہ، کا حصول شدید طور پر صحت کے حق کو سب کے لیے یقینی بنانے پر منحصر ہوگا۔
اے ایچ ایف (ایڈز ہیلتھ کیئر فاونڈیشن) کے صدر مائیکل وینسٹین نے 14 نومبر کو گلوبل فنڈ کے انتظامی ڈائریکٹر پیٹر سینڈز کے تقرر کا خیر مقدم کیا اور کہا: “ہمیں اس بات پر مایوسی ہے کہ ایڈز، تب دق اور ملیریا سے لڑنے کے لیے گلوبل فنڈ اب بھی فی کس آمدنی کی زمرہ بندی کی آخری حد کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے، جسے عالمی بینک نے امداد کی فراہمی کے لیے ایک کسوٹی کے طور پر ممالک کوتفویض کیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا : “اب اس بات کا وقت آ گیا ہے کہ صرف رقم پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے صحت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ یہ ایک قابل افسوس بات ہے کہ امیر ممالک اس بات کی تعریف پیش کر رہے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے غربت کا مطلب کیا ہے۔ کسی بھی پیمانے پر 2.76 $ والی فی کس آمدنی ایک درمیانے درجہ کی آمدنی نہیں ہے۔”
اے ایچ ایف نے کہا کہ فی الحال، جنیوا میں قائم گلوبل فنڈ ( جی ایف) کی ایچ آئی وی امداد کی اہلیت، بنیادی طور پر ایک ملک کی عالمی بینک کے ذریعہ قرضہ دئےجانے والے گروپ کی اس ملک کے جی این آئی ( مجموعی سالانہ آمدنی) کے ساتھ مربوط زمرہ بندی پر مبنی ہے، اور ثانوی طور پر، بیماری کی بوجھ کی ایک نمائندگی کے طور پر ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کی شرح پر مبنی ہے۔
جب کسی ملک کی فی کس جی این آئی یعنی مجموعی قومی آمدنی 3,955 $ سے زائد ہو جاتی ہے تو عالمی بینک اسے ایک اعلیٰ درمیانی آمدنی والا ملک ( یو ایم آئی سی) تصور کر تا ہے۔ موجودہ گلوبل فنڈ پالیسی کے مطابق، اگر کوئی یو ایم آئی سی (اعلیٰ درمیانی آمدنی والا ملک) انتہائی شدید بیماری کے بوجھ کا حامل نہیں ہے تو امداد کے لیے اس کی اہلیت مزید باقی نہیں رہے گی، چاہے اس کی ایچ آئی وی وبائی بیماری بڑھنا شروع ہو جائے۔
“گوبل فنڈ کے پاس ‘منتقلی کی مستعدی کی تشخیص’ کا ایک ٹول موجود ہے، جو گلوبل فنڈ کے ذریعہ موجودہ طور پر جاری پروگرام کے حصول اور برقراری کے سلسلہ میں یو ایم آئی سی (اعلیٰ درمیانی آمدنی والے ملک) کی اقتصادی گنجائش کا تعین کرتا ہے۔” یہ بات اے ایچ ایف کے عالمی صحت عامہ کے سفیر اور میکسیکو کے ایڈذ پروگرام کے سابق سربراہ ڈاکٹر جارج نے کہی۔ “افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ طریقہ کار ایچ آئی وی میں اضافہ کے نئے واقعات کو اس فارمولا کے ایک حصّہ کے طور پرملحوظ نہیں رکھتا۔”
ڈاکٹر ساویدرا نے مزید کہا:”فی الوقت، ایک ترقی پذیر ملک کو امداد روکی جا سکتی ہے، چاہے اس کے نئے ایچ آئی وی کے انفیکشن کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہو اور اس کا وبائی مرض قابو میں نہ ہو۔
انہوں نے مزید کہا: ” ترقی پذیر ممالک کو قرضہ دینے کے مقصد سے عالمی بینک کے ذریعہ مرتب کردہ فی کس جی این آئی (مجموعی سالانہ آمدنی) کی آخری حد کو گلوبل فنڈ کے ذریعہ استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ جی ایف ( گلوبل فنڈ) کوئی قرضہ فراہم کرنے والی ایجنسی نہیں ہے بلکہ یہ ایک مالیاتی میکانیزم ہے جس کا مقصد ایچ آئی وی، تب دق اور ملیریا کو ختم کرنا ہے۔ یہ بات عالمی صحت عامہ کے لیے نقصان دہ ہے اور زندگی بچانے والی امداد اس کی سب سے زیادہ ضرورت رکھنے والے لوگوں کو موصول ہونے کو یقینی بنانے کے لیے بہتر اور مختلف طریقے موجود ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے، اے ایچ ایف عالمی بینک کے ذریعہ’درمیانی آمدنی والے ممالک’ ( ایم آئی سی) کی زمرہ بندی کے طریقہ میں اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک وسیع البنیاد اور عالمی وکالتی مہم کی قیادت کر رہی ہے۔ اس نے اکتوبر 2017 کو واشنگٹن ڈی سی میں واقع عالمی بینک کے صدر دفتر کے باہر اپنا حالیہ مظاہرہ کیا تھا۔
اپنی ‘ایم آئی سی بڑھاؤ’ عالمی وکالتی مہم کے ذریعہ، جس کا 30 ممالک میں موجود 300 سے زائد تنظیموں کی حمایت کے ذریعہ 2015 میں آغاز کیا گیا تھا، مظاہرین نے عالمی بینک سے اپیل کی کہ وہ ایم آئی سی (درمیانی آمدنی والے ملک) کے زمرہ کی کم تر حد کو فی کس مجموعی قومی آمدنی یا اس سے زائد – تقریباً 10 $ فی دن کے مساوی ہے، پر متعین کریں تاکہ غیر ملکی امداد بشمول ایچ آئی وی / ایڈز کی دواؤں اور دیگر اہم دواؤں تک غریب ممالک کی رسائی کو بڑھایا جا سکے۔
عالمی بینک فی الحال ایم آئی سیز (درمیانی آمدنی والے ملک) کو ایسے ممالک کے طور پر متعین کرتا ہے جن کی آمدنی $2.76/ فی دن ہے– جو کہ مشکل سے بین الاقوامی غربت کی سطح $1.4/دن سے زیادہ ہے۔
[آئی ڈی این- اِنڈپت نیوز– 26 نومبر 2017]
تصویر بشکریہ: دی گلوبل فنڈ ٹو فائیٹ ایڈز، ٹیبو کلوسس اور ملیریا