سٹیلا پال کی طرف سے
کھٹمنڈو (آئی ڈی این)۔ 21 سالہ پابترا بھٹّاری ایک مترنم آواز اور مسکراتے چہرے والی جوان، شرمیلی خاتون ہے۔ لیکن، اسے جنسی صحت کی خدمات کے بارے میں پوچھیں تو جس شدت سےوہ کہے گی کہ کیسے اس کے ملک کے نوجوان ایسی خدمات کا استحقاق محفوظ رکھتے ہیں، اس کی شرم لمحہ بھر میں غائب ہو جائے گی۔
“ہمارے ملک کا انحصار نوجوانوں کے دم قدم سے ہے۔ لہذا ہم ایج آئی وی کے مریض نوجوانوں سے بھرے ہوئے ملک ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ جنسی اور تولیدی صحت کی خدمات (ایس آر ایچ آر) تک ہماری مکمل رسائی ہونا ضروری ہے، ” وہ اچانک اپنی عمر سے کہیں زیادہ بالغ لہجہ میں یہ بات کہتی ہے۔
اکیلی بھٹّاری کا بیان ابھی، واضح نہیں کرتا جو کہ پہلے سے ہی ایس آر ایج آرمیں۔ سینکڑوں نوجوانوں میں مشاورت اور آگاہی پیدا کر چکی ہے۔ جن میں سے بہت سے ھائی سکول کے طلباء ہیں۔ وہ کہتی ہے “میں بھٹک پور، لالِت پور، اورکرط پور میں 20 سے زائد اسکولوں میں گئی ہوں۔
نوجوانوں کے لئے نوجوان
اکتوبر کی ایک صبح دن چڑھے، ایک سرکاری ھائی اسکول کے باہر بھٹاری اور اسکے ساتھ دیگر دو نواجوانوں نے آئی ڈی این اسکول قائم کیا۔ میری اسٹوپس انٹرنیشنل (ایم ایس آئی)۔ ایک عالمی آرگنائزیشن جو کہ ایس آر ایچ آر پر کام کر رہی ہے، کی طرف سے نوجوانوں کو تربیت اور تعاون حاصل ہے۔ جو کہ ایک دس ارکان پر مشتمل ‘راکٹ اور خلا’ نامی گروپ کا حصہ ہیں۔ جس کا ہدف ان کے شہر اور علاقہ کے ہر نوجوان کو ایس آر ایچ آر تک رسائی اور تعلیم فراہم کرنا ہے۔
نوجوانوں نے کھٹمنڈو کی ایک مصروف مارکیٹ۔ پوٹالی سڑک میں ٹیکسی کو روکنے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی انھیں پتہ چل گیا کہ شہر میں ٹیکسی کی ہڑتال ہے اور انھیں صرف ایک اخبار ترسیل کرنی والی بغیر سیٹوں کی وین دستیاب ہے۔ تاہم یہ امر ان کے جذبے کو کم کرنے میں ناکام رہا کیونکہ وہ وین کے فرش پر بیٹھ کر گھنٹہ بھرکی طویل مسافت طے کر کے بدھا کے پڑوس میں ایک سرکاری ہائی سکول جانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔
بھٹاری نے انکشاف کیا، کہ وہ سکول کے پرنسپل کی طرف سے مدعو کیے گئے ہیں، تا کہ وہ 11 گیارہویں اور 12 بارہویں گریڈ کے طلبا کے ساتھ جنسی صحت اور حفظانِ صحت کے بارے میں بات کر سکیں۔ “وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اسے (ان سے) بہتر طور سے کر سکتے ہیں،” وہ اپنی آواز میں تھوڑے فخر کے ساتھ یہ کہتی ہے۔
گھنٹہ بھر کے بعد، تینوں جوان وین سے باہر نکل کر سرکاری سکول کی قلعہ نما عمارت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ تین منزلہ عمارت کے دو نیم تاریک کمروں میں تقریباً سو کے لگ بھگ نوعمر لڑکے اور لڑکیاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسکا مرد ساتھی سورج لڑکوں سے ملاقات کرتا ہے، جبکہ بھٹاری اور اسکی خاتون ساتھی دیپالی پردھان لڑکیوں کے کمرے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔
پردھان بتاتی ہےکہ سکول کے حکام نے طالبات کو حیض حفظان صحت کے بارے میں بتانے کے لئے رضاکاروں کی درخواست دی ہے ۔ تو پھر اگلے 45 منٹوں میں، نوجوان خاتون اپنے سامعین کو حیض کا عمل سمجھاتی ہے: وہ طالبات سے اپنی گفتگوکا آغاز اس سوال سے کرتی ہے کہ جب انھیں پہلی دفعہ حیض ہوتا ہے تو کیا تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔
طالبات حیران کن نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتی ہیں اور بے چینی سے مسکراتی ہیں۔ یوتھ کارکن انھیں بولنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتی ہیں، یہ کہتے ہوئے “مجھے دیکھو، میں بالکل تمھارے جیسی ہوں، میں تمھاری بڑی بہن کی طرح ہوں۔” بہت آہستگی سے، ایک لڑکی کھڑی ہوتی ہے اور کہتی ہے “چھاتی کا ابھر آنا۔” بھٹاری تمام سے کہتی ہے کہ طالبہ کے لئے تالیاں بجائیں۔ اس سے، برف پگھلنے لگتی ہے۔
اگے 45 منٹوں مین، بھٹاری اور پردھان حیض کے تمام پہلوؤں، متوقع جسمانی تبدیلیاں، دردِ حیض، حیض کے ادوار ،اسے کیسے ِگنا جا سکتا ہے اور اس سائیکل کے دوران حفظانِ صحت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ “ان کے افرادِ خانہ اور ان کی استاتذہ ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اور لڑکیاں بھی پوچھتے ہوئے شرم محسوس کرتی ہیں۔ لیکن جب ہم بات کرتے ہیں، وہ سنتی ہیں، ہم ان کی دوست ہیں۔” پردھان کہتی ہے۔
نوجوان راکٹ اور خلا گروپ کے رکن، سورج کھدکا، لڑکوں کے کمرے میں، نوجوانی، جنسِ مخالف کے ساتھ جسمانی کشش، مشت زنی، کنڈوم اور محفوظ جنسی تعلقات کی اہمیت کے بارے میں بات کرتا ہے۔
ڈین بہادر 19 سال کی عمر اور جسمانی طور پر معذور ہے۔ اس سال مئی سے، وہ ایس آر ایچ آر پر اپنے شہر میں معذور ساتھی نوجوانوں کو تعلیم دے رہا ہے۔
بہادر کہتا ہے، آج نیپال میں 3 ملین معذور لوگ ہیں، اور ان میں سے آدھے تو جوان ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک وہ معاشرتی بائکاٹ کا شکار تھے، وہ کہتا ہے: “لوگ معذوروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں ایسے لوگوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جیسے کہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے بد قسمتی لانے کا باعث ہوں۔”تاہم،معذور لوگوں کے لئے آج، خاص سہولتیں موجود ہیں جن میں تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ بھی شامل ہے۔
پھر بھی، جب جنسی صحت کی بات آتی ہے، معذور افراد، خاص طور پر نوجوان عموماً نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں۔ بہادر اس رجھان کو بدلنا چاہتا ہے، لیکن ابھی تک، یہ ہدف ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ “لوگ مجھ پر ہنستے ہیں جب میں ایس آر ایچ آر کی بات کرتا ہوں۔ بعض لوگ اسے عجیب سمجھتے ہیں اور حتی کہ مجھ سے پوچھتے ہیں، “کیا معذور لوگوں کی عام جنسی ضروریات ہوتی ہیں؟”
تاہم وہاں بہت سے لوگ ہیں جو اسکی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ لوگ ہیں جو بذاتِ خود معذور ہیں، جن میں نیشنل وھیل چیئر باسکٹ بال ایسوسی ایشن۔ معذور کھلاڑیوں کے فروغ کے لئے سرگرم ایک ادارہ، کے کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ بہادر متعدد کھلاڑیوں سے ملاقات کر کےانھیں ایس آر ایچ آر کے حقوق کے متعلق آگاہی فراہم کر چکا ہے۔ جن میں مانع حمل، اسقاط حمل، جنسی صحت اور حفظانِ صحت پر مشاورت بھی شامل ہے۔
نیلیما راؤت، ایم ایس آئی کی یوتھ پراجیکٹ مینیجر واضح کرتی ہیں، ” اقوامِ متحدہ برائے پائیدار ترقی کے اہداف کا بنیادی نعرہ کہ ‘کوئی پیچھے نہ رہ جائے’ کے لئے ہم معذور نوجوانوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
تاہم، یہاں نیپالی معاشرہ میں زیادہ تر قدامت پسند اعتراضات درپیش ہیں جہاں شادی سے پہلے جنسی تعلقات ممنوع ہیں۔ وینوکا باسنط، ایک 20 سالہ کالج کی طالبہ کہتی ہے کہ اس کے والدین حیرت زدہ رہ گئے جب انھیں پتہ چلا کہ وہ بطور جنسی صحت کے کارکن کام کر رہی ہے۔ ‘وہ شرمندہ تھے اور ڈر رہے تھے کہ اب ہر شخص مجھ پر انگلی اٹھائے گا اور کہے گا “وہ جنسی تعلقات کی باتیں کرتی ہے۔” وہ یاد کرتی ہے کہ اسے اپنے والدین کو قائل کرنے میں بہت طویل وقت صرف کرنا پڑا تھا۔
سورج کھڈکا کہتا ہے کیونکہ سکول کے نصاب میں جنسی تعلیم شامل نہیں ہوتی، طالب علم اسکے اسباق پر اتنی اہمیت سے نہیں غور نہیں کرتے۔ “وہ ہستے ہیں اور مجھ سے غیر متعلقہ سوال پوچھتےہیں۔” تا ہم اس کے پاس ایک حل ہے: “انھیں ہسنے دو، لیکن انھیں ان سے متعلقہ باتیں پوچھنے کی حوصلہ افزائی کرتے رہو۔”
ڈین بہادر کی طرح اور بھی بہت سوں کو اپنی مقامی زبان میں جنسی صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کئی چیلنچز کا سامنا کرنا پڑتا ہے: مثال کے طور پر ‘نائٹ فال’ ، نیپالی میں اس کا کوئی مترادف موجود نہیں ہے۔ معذور نوجوان جنھیں ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ لگی ہو وہ نائٹ فال میں مبتلا ہو جاتے ہیں، لیکن اسے محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ وہ کمر سے نیچے مفلوج ہو کر رہ گئےہیں۔ یہ ان کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے لئے بھی اہم ہے، جو ان کا خیال رکھتے ہیں کہ اسے جانیں، تاکہ وہ شفافیت کو برقرار رکھ سکییں۔ لیکن جب میں اسکی وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں، تو میرے پاس الفاظ نہیں ہوتے۔”
لیکن، کیونکہ نوجوان ایس آر ایچ آر معلمین کی فتح ان کے ساتھی نوجوانوں کے ساتھ بات چیت پر منحصر ہے، لہذا انھوں نے بات چیت کی رکاوٹوں سے نپٹنے کے لئے نت نئے حربے اختیار کر رکھے ہیں۔
ونوکا باسنظ بعض حربوں کا مظاہرہ کرتا ہے جس میں مردانہ اور زنانہ جسموں کی رنگین تصایر اور تولیدی اعضاء، پوسٹر، روشن رنگوں والی ٹی شرٹیں، اور نعرے لکھے ہوئے بریسلیٹ شامل ہیں جیسے کہ “کوئی کنڈوم نہیں، کوئی جنسی تعلق نہیں” اور “میں ایک راک اسٹار ہوں۔”
یہ ان اشیاء کو ہر میٹنگ میں اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ جبکہ کہ پوسٹر اور تصاویر نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اور شرکاء کی حوصلہ افزائی اور پر جوش ردِ عمل کے لئے شارٹس اور بریسلیٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔
(2015 میں دورانِ زچگی ہر 10,000 میں سے 134 اموات کو کم کرنے کے لئے) 2002ء میں ایم ڈی جی 5 ، دی میلینئم ڈویلپمنٹ گول 5 کی طرف سے نیپال میں اسقاطِ حمل کو قانونی حیثیت دی گئی۔ ایم ڈی جی کے دور (2000 تا 2015 )، میں ملک بھر میں نمایاں پیش رفت ہوئی اور زندہ بچوں کی پیدائش کی شرح اموات 581/10,1000 سے گھٹ کر 281/10,000 رہ گئی (نیشنل ڈیموگرافک ہیتھ سروے، 2011)۔
اس کے باوجود تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق نیپال (27.5%) اب بھی ایشیا کے خطے میں مانع حمل کی ضروریات پوری نہ ہونے والوں کی صف میں کھڑا ہے۔ ضروریات ادھوری رہ جانے کے انڈیکڑ کے مطابق، کم از کم 14% اور 12% شادی شدہ یا جنسی تعلق رکھنے والی تولیدی عمر کی حامل خواتین،جنوبی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء میں تاخیر سے حاملہ ہونا یا حمل سے بچنا چاہتی ہیں اور ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اور تقریباً ملک کی آدھی آبادی اس بات سے ناواقف ہے کہ اسقاطِ حمل قانوناً جائز ہے۔
یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں یوتھ ہیلتھ کے رضا کار،ایس آر ایچ آر کو معاشرہ کے سب سے زیادہ ضرورت مند اور کمزور طبقوں: تارکین وطن محنت کشوں، پسماندہ علاقوں کہ باشندوں اور نوجوان خواتین کہ جن کہ شوہر بطور مہاجر کام کرنے کے لئے بیرونِ ملک جا چکے ہیں، تک پہنچانے میں ایک بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔
23 سالہ عمر کی کویتا چولاگانی ایک جوان ماں ہے جسکا شوہر بطور ڈرائیور مشرقِ وسطی میں کام کرتا ہے۔ کویتا ایک مانع حمل امپلانٹ استعمال کرتی ہے، جو اسے نے میری سٹوپس کے زیرِ انتظام ایک کلینک سے مفت حاصل کیا ہے۔ ” میرے لئے اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا” یہ وہ جوان ماں کہتی ہے کہ جو شہر کے مضافات میں ایک پسماندہ علاقے میں رہتی ہے۔، “لیکن نوجوان کارکنوں نے مجھے یہ جگہ دکھائی ہے۔ اب میں اپنی ہمسایہ عورتوں کوبتایا کرتی ہوں کہ وہ یہاں آئیں،” وہ کہتی ہے۔
راؤت کے مطابق، جب سے یوتھ پراجیکٹ کا آغاز ہوا ہے ایس آر ایچ آر خدمات میں 100% اضافہ ہوا ہے۔ ” ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں جن تک پہنچنا باقی ہے، لیکن بڑھتی ہوئی طلب ہمیں امید دلاتی ہے،” اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔[DN-InDepthNews۔۔ 24 نومبر 2016 ء]
فوٹو:کھٹنمڈو میں نوجوان راکٹ اور خلائی گروپ کو کیسے مزید مؤثر جنسی اور تولیدی حقوق پر، اظہار کرنے کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے۔ کریڈٹ: سٹیلا پاؤل | IDN-INPS
آئی ڈی این انٹر نیشنل پریس سنڈیکیٹ کا پرچم دار ہے۔