ازنعیم الحق
ڈھاکہ (IDN) – اوربس انٹرنیشنل میں چیف ایگزیکٹو آفیسر اور صدر جان بوب رنک، جنھیں بوب کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، نے حال ہی میں ایک خاص مشن پر بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔ انہوں نے کچھ ہسپتالوں کا دورہ کیا جہاں اوربس نے شراکت دار کی حیثیت سے اندھے پن سے بچنے کے لئے بنگلہ دیش کی کوششوں میں تعاون کیا ہے۔
بوب، امریکہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر فورس بریگیڈیئر جنرل ہیں، جو بنگلہ دیش میں تدریسی ہسپتال کے یادگار دورہ یا بہتر الفاظ میں فلائنگ آئی ہسپتال (FEH) کے ٹریننگ پروگرام کے چند ہفتے بعد بنگلہ دیش آئے۔
بوب، جنھوں نے فروری 2، 2016 کو اوربس انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی، نے بنگلہ دیش میں IDN-INPS کے نمائندے نعیم الحق سے اس جنوبی ایشیائی ملک میں آنکھ کی صحت کے لئے ضروریات اور سپورٹ کے بارے میں بات کی، اور انھوں نے قابل احتراز اندھاپن خاص طور پر بچپن کے اندھے پن کے مسائل دور کرنے کے سلسلہ میں اپنے تجربات پر روشنی ڈالی۔
بوب نے کہا: “نظر کی بحالی کے لیے دیے جانے والے اپنے ہر ڈالر کے بدلے آپ کو 4 ڈالر واپس مل جاتے ہیں۔” کسی مخصوص صنعت میں ریٹائر ہونے والے لوگوں کے حالیہ مطالعہ سے، جنہوں نے کام بند کر دیا تھا کیوں کہ وہ چیزوں پر مناسب طریقے سے توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب نہیں تھے، ظاہر ہوتا ہے کہ جب وہ چشموں کا استعمال کرتے تھے تو کم از کم دس سے پندرہ سال تک کام جاری رکھنے میں قابل تھے۔
انہوں نے مزید کہا: “کتنے کاروباری ادارے اپنے باصلاحیت کارکنوں کو ایک مزید دہائی کے لئے ان کی ملازمتوں پر باقی رکھنا پسند کریں گے؟ لیکن ہم اس کے بارے میں نہیں سوچتے کیونکہ اس کی بڑی خبریں نہیں بنتیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کی کارکردگی میں اس طرح کا اضافہ بہت سارے کاروباری مواقع فراہم کرتا ہے اور اس سے لوگوں کو غربت سے باہر نکالنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، بڑوں کا کام میں مشغول ہونا حکومت کے مفاد میں ہے۔ یہ ایک کاروباری معاملہ ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس کاروباری معاملہ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
“سب سے بہتر چیز جو میں کر سکتا ہوں وہ یہ کہ میں اوربس بنگلہ دیش کو نئے شراکت دار کی تیاری میں تعاون کرنا ہے اور انہیں بتانا ہے کہ اوربس انٹرنیشنل ان کوششوں کا اور وہ جو کرنا چاہتے ہیں اس کا سپورٹ کرتی ہے” بوب نے کہا۔ بنگلہ دیش میں 160 ملین افراد کی آبادی میں صرف 34 بچوں کے ماہر چشم معالج ہیں۔ ریاستہائے متحدہ میں ہر 400000 افراد کے لئے ایک ماہر چشم معالج موجود ہے۔ “لہذا، یہ تعداد ایک ملین پر تقریباً ڈھائی ہے۔ اور ہماری نئی کوششیں اسی سلسلہ میں ہیں۔”
“ہم مزید بچوں کے ماہر چشم معالج اور بے ہوشی کے ماہرین کو تربیت دینے جا رہے ہیں جو ان کوششوں میں بھی مدد کر سکتے ہیں کیونکہ اس طرح کی بے انتہا ضرورت ہے اور بچوں کو ایک موقع ملنا چاہیے۔ ان کو موقع نہیں ملتا تا آں کہ ان کو آنکھوں کی دیکھ بھال میسر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ بصری طور پر متاثر بچے کے والدین ہی اپنے بچے کی دشواریوں کو سمجھتے ہیں جب وہ اسے اسکول میں بلیک بورڈ پر لکھی ہوئی چیزوں کو پڑھنے کے لیے جد وجہد کرتا دیکھتے ہیں یا جب وہ کھیل نہیں سکتا یا جب اس کا رویہ نامناسب ہوتا ہے۔ اوربس بنگلہ دیش کی کوششوں میں مدد کرکے ہم ایک ایسے میدان میں مدد کرسکتے ہیں جہاں ایک بہت بڑا خلا ہے۔ “
” تنظیم کے سربراہ کے طور پر باہر سے میرا یہ کام ہے کہ دنیا بھر میں اوربس کے پروگراموں پر نظر رکھوں۔” فی الحال تنظیم 18 ممالک میں 56 پروگراموں کو بروئے کار لا رہی ہے، “اور شاید ہم دوسرے ممالک سے سبق لے سکتے ہیں جہاں اسی جیسے لیکن بہت مؤثر پروگرام جاری ہیں اور ہم ان چیزوں کو مختلف طرح سے تشکیل دینے کے لئے باہمی تعاون کرسکتے ہیں جو بنگلہ دیش میں قابل قدر ہوسکتے ہیں۔”
“میں ایسا تعاون فراہم کرسکتا ہوں جو یہاں بنگلہ دیش کے اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت کو دوسرے ممالک سے کچھ سیکھ کر بڑھا سکتا ہے۔” بوب نے کہا۔ مثال کے طور پر، آنکھ کی دیکھ بھال والے ہسپتال کے لئے ایک نئی ایپ کی تیاری، جو مثلاً چین میں ہو اور اس کا بنگلہ دیش میں اشتراک ڈاکٹروں یا دیگر عملے کے ارکان کو بہت مدد فراہم کرسکتا ہے۔ لہذا میں عالمی برادری سے سیکھ کر جہاں اوربس کام کرتا ہے اس طرح مدد کرسکتا ہوں۔
بوب، جو ایک پائلٹ ہیں اور ایک منصوبہ ساز اور ٹیم کے رہنما کے طور پر 30 سال سے زائد کا تجربے رکھتے ہیں، نے اس سلسلہ میں بھی بات کی کہ کس طرح اچھا کام کیا اور اچھی چیزیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو دیتے ہوئے اچھا لگتا ہے لیکن دینے کا کیا نتیجہ ہے؟” لہذا اگر آپ ایسے ادارے کو دیں جو آنکھوں کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد تیار کررہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی دیکھ بھال کر سکیں، تو آپ معاشروں، خاندانوں اور کمیونٹی کو تبدیل کر رہے ہیں – یہ ایک دیرپا تبدیلی ہے۔”
انہوں نے Philanthropy Age کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جن کا نعرہ ہے “ہر ڈالر کی بڑی اہمیت ہے”: ” Philanthropy Age کمیونٹی زکات کے فلسفہ کے ساتھ وجود میں آیا تھا (جو دین اسلام کا حصہ ہے)۔ یہ تنظیم صرف دینے میں یقین نہیں رکھتی بلکہ فنڈ کے مؤثر استعمال کو یقینی بناتی ہے۔ Philanthropy Age کی اوربس کے ساتھ شراکت داری ہے جو اس وقت ایک تین سالہ ٹریننگ پروگرام کو فنڈ مہیا کر رہا ہے اور ہم ایک مصنوعی سینٹر تعمیر کررہے ہیں تاکہ ڈاکٹروں کو بنیادی صلاحیتوں میں مریض کو چھوئے بغیر تربیت مل سکے، ایک پائلٹ کی طرح جہاں بغیر کسی کو نقصان پہنچائے بغیر آزمائش اور غلطی کے ذریعے کمال حاصل کرنے کے مواقع میسر ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا: “ہم چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کو اس طرح کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو، جس میں ڈاکٹرز مصنوعی سرجریوں پر عمل کرنے کے قابل ہوں تاکہ ڈاکٹر کو بچے کی آنکھ پر عمل کرکے نہ سیکھنا پڑے۔ جب پہلی بار آپ بچے پر کام کرتے ہیں تو آپ بالکل صحیح کرنا چاہتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ اپنے کام پر پوری توجہ مرکوز کرکے بہت اچھا کام کر تے ہیں۔ “
“FEH اعلی ترین چیز ہے – یہ انفیکشنز کو روکنے کے لئے جدید ترین مشینیں، نئے ہسپتال ایئرفلو ٹیکنالوجی ہے، یہ جدید ترین پریکٹس ہے کہ آپ ان دروازوں سے کیسے گذر سکتے ہیں جو انفیکشن کو روکتا ہے اور دیگر جدید ترین ٹیکنالوجیز۔ ہم مقامی ڈاکٹروں کی رہنمائی کرسکتے ہیں کہ ان کے لئے اعلی ترین ٹیکنالوجی کی اگلی حالت کیا ہے۔” بوب نے کہا۔
“کبھی کبھی یہ مفید نہیں ہوتا کہ اس وقت آپ جو کچھ کرتے ہیں اس سے اعلی ٹیکنالوجی کی طرف جائیں کیوں کہ یہ فلانگ اکثر بہت بڑی ثابت ہوتی ہے۔ ہم ڈاکٹروں کو بھی مشورہ دیتے ہیں کہ ان کو کون سی نئی ٹیکنالوجی تلاش کرنی چاہیے۔ اور اس طرح ان کی مدد کرنا یہ اعلی ترین ٹیکنالوجی کہنے سے زیادہ قابل قدر ہے۔”
“میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ کبھی کبھی اعلی ترین ٹیکنالوجی ایسے سامانوں کے بل اور سپورٹ کے ساتھ آتی ہے جو قابل استطاعت نہیں ہوتا۔ اور آپ اس ممکنہ اور قابل استعمال چیزوں کی حالت میں کچھ کرنا چاہتے ہیں جو طویل عرصے تک چل سکتے ہیں۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ بائیو میڈیکل تکنیکی ماہرین اور ایسے لوگوں کو لاتے ہیں جو مشینوں کی مرمت کا تجربہ رکھتے ہیں۔”
بوب نے مزید کہا: “ہم ایسے ملک میں واپس نہیں جانا چاہتے ہیں جہاں سامان کا ایک ٹکڑا ٹوٹ جائے اور کوئی بھی اس کی مرمت نہ کرنے والا ہو۔ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ سامان کو برقرار رکھیں اور اسے بہتر طور پر چالو رکھیں۔ لہذا میں پائیدار ترقی کا حامی ہوں – ایسی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کیلئے جو طویل عرصے تک کارگر ہوں، جو طویل عرصے تک لوگوں کی مدد کریں۔ ایک ماہر اطفال کے نقطہ نظر سے ہم نے زامبیا میں اس کا تجربہ کیا ہے جہاں صرف ایک ماہر اطفال چشم سے اس وقت ہمارے پاس کئی ٹرینرز موجود ہیں جو مسلسل دوسروں کو تربیت دیتے ہیں۔” [IDN-InDepthNews – 16 مارچ 2018]