“بنگالی” مسئلہ کو حل کرنے کے لیے میانمار سری لنکا سے سبق حاصل کرسکتا ہے۔
از جیا سری پریالال*
سنگاپور(آئی ڈی این) – روہینگیا بحران اور بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کا سیل رواں اس وقت میڈیا کی سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ سری لنکا کے ایک شہری کے طور پر میں ماضی میں سری لنکا میں موجود بے وطنی کے تصادم اور میانمار کے موجودہ بے وطنی کے تصادم میں مماثلت کو محسوس کر سکتا ہوں، اور اس بحرن کو حل کرنے کے لیے سری لنکا کا بھارت سے رجوع کرنا میانمار کے لیے اس مسئلہ کو حل کرنے کے سلسلہ میں ایک عملی ڈھانچہ ثابت ہو سکتا ہے۔
1948 میں جب سری لنکا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو اس وقت اس جزیرہ والے ملک میں تقریبا دس لاکھ ٹمل رہ گئے تھے، جنہیں سری لنکا میں “بھارتی ٹمل” کہا جاتا تھا۔ انہیں انگریزوں نے جنوبی ہند کی سب سے نچھلی دلت ذات سے سنہالی کاشتکاروں سے ضبط کردہ چائے کے ان باغات میں کام کرنے کے لیے سری لنکا لایا گیا تھا، جہاں پر سنہالیوں نے کام کرنے سے انکار کیا تھا۔ اسی لیے ان ٹملوں کی موجودگی پرسنہالیوں میں گہری ناراضگی پائی جاتی تھی۔ برطانوی حکومت نے ایک بے وطن برادری پیدا کی ہے، جو کہ نہ تو بھارتی شہری تھے اور نہ ہی سری لنکا کے شہری تھے۔
بے وطنی معاشی حیثیت سے قطع نظر کسی بھی شخص میں نا اُمیدی اور بے بسی پیدا کرتی ہے۔ اس قسم کی صورت حال سے پیدا ہونے والی غیر یقینی تصادم کا شکار ہونے والے لوگوں کے لیے بے شمار پریشانیوں کا سبب بنتی ہے؛ ان میں سے کئی لوگ غربت اور مفلسی کے شکار ہیں جیسا کہ میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان پائی جانے والی تناؤ والی صورت حال میں مشاہدہ کیا گیا ہے۔
میڈیا کی خبروں کے مطابق راکھینے ریاست میں روہنگیا برادری کو نشانہ بنانے والے تشدد کا سبب بنے والے تمام مظالم کے پیچھے میانمار فوج کا ہاتھ ہے۔ میانمار یہ دعویٰ کرتے ہوئے اپنے اوپر عائد الزامات کا جواب دیتا ہے کہ وہ لوگ 25 اگست 2017 کو میانمار-بنگلادیش سرحد میں 35 پولیس تھانوں اور ایک فوجی کیمپ پر حملہ کرنے والے آرکھینے روہنگیا سالویشن آرمی ( اے آر ایس اے) کے طور پر شناخت کردہ مسلم شدّت پسند ہیں۔ واضح رہے کہ یہ حملہ اس دن کیا گیا، جس دن اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کی سرپرستی والا ایک کمیشن بنام مشاورتی کمیشن برائے راکھینے ریاست اپنی وسط مدّتی روپورٹ جاری کرنے والا تھا۔ میانمار حکومت کے ذریعہ کیے گیے دعویٰ کے مطابق، فوجی کریک ڈاؤن راکھینے میں موجود تمام شہریوں بشمول ان بنگلہ دیشیوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا تھا، جو اس وقت ہر طرح کے تشدد کے شکار ہیں اور بہت ہی دردناک کی زندگی گزار رہے ہیں۔
میڈیا اور لابی گروپ میانمار اسٹیٹ کاونسلر آنگ سانگ سوکی پر ایک نصابی ‘ نسلی صفائی’ کے تدارک کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ الزامات اور تنقید کاکردگیوں کے دو سیٹ ہیں؛ جو کہ عمومی طور پر اہم اخباری واقعات کو عوامی ہمدردی کے حصول کے لیے لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے مسائل پر ڈرامائی انداز میں غور کرتے ہیں۔ لیکن، پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ جذباتی اور عقلیتی طریقہ کار کے درمیان ایک درست توازن برقرار رکھیں تاکہ ان مسائل کا ایک حتمی حل نکل آئے، جن کی جڑیں اکثر نو آبادیاتی دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اگر اے آر ایس اے کے حملہ کے وقت کو دیکھا جائے تو کوفی عنان کے ذریعہ رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ساتھ، اس وقت بھارتی وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے میانمار کا دورہ کیا تھا، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے اپنے دورہ کے موقع پر بین الاقوامی میڈیا کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے لیے جواب نہ دینے اور کوئی کارروائی نہ کرنے پر آنگ سانگ سوکی کے خلاف میڈیا کی بین الاقوامی مہم بھی موجود تھی۔ ان کے نقاد اور حقوق انسانی لابی گروپ ان پر خاموش رہنے کا الزام عائد کرتے ہیں، کیونکہ آنگ سانگ سوکی پر میڈیا کی دباؤ کی حکمت عملی کا کوئی اثر نظر نہیں آ رہا تھا۔
بیسویں صدی میں نوآبادیاتی حکومت کے ذریعہ تین بدنام تاریخی تقسیمیں انجام دی گئیں، جس نے دشمنی کے بیج بوئے اور ان کے نتیجہ میں دہشت گردی کا جنم ہوا، اور نتیجتاً جنگیں واقع ہوئی کے لیے بوئی اور بے شمار انسانی مسائل اور تکلیفات پیدا ہوئیں، جو اب تک باقی ہے۔ پہلی 15 اگست 1947 کو بھارت اور پاکستان کی تقسیم۔ دوسری: مئی 15 کو عرب اور یہودیوں کے درمیان تقسیم اور اسرائیلی ریاست کی تخلیق۔ تیسری اسی سال (1948) میں برما کی بھارت سے علیحدگی۔ یہ تاریخ ہے۔
ان جغرافیائی فیصلوں نے تصادم سے گھرے ان علاقوں کے اندر رہنے والے، لوگوں میں بے وطنی اور ملکیت کے فقدان کے احساس والی علیحدگی کی بے شمار جد و جہدوں کو جنم دیا۔ اکثر اوقات دیومالائی عقائد، تحریف شدہ تاریخی حقائق کوآزادی کی جد وجہد کے نصب العین کی تائید کے حصول کے لیے علیحدگی کی اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دینے اور مسائل کے حل کے لیے تشدد کو اختیار کرنے کے لیے گروپوں کا تعاون کرنے اور ان کی مدد کرنے کی مہم چلانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
سری لنکا (تب سیلون) اور میانمار(تب برما) کو ٹھیکہ مزدوروں کو شہریت عطا کرنے کے چیلنج کا سامنا کرنا تھا، جنہیں نوآبادیاتی دورِ حکومت میں انگریزوں کے ذریعہ قائم کردہ چائے کے باغات میں کام کرنے کے لیے سستے مزدوروں کے طور پر لایا گیا تھا۔
نوآبادیاتی آقاؤں نے ٹھیکہ مزدوری کو غلاموں کی تجارت کی جگہ پر ایک متبادل نظام کے طور پر “کُلی” کے طور پر شناخت شدہ مزدور خاندانوں کو حاصل کرکے اور انگریزی میں تحریر شدہ ایک معاہدہ پر دستخط کرواتے ہوئے اور آنگھوٹے کے نشان کےذریعہ ان کی رضامندی حاصل کرتے ہوئے چالاکی کے ساتھ رائج کیا تھا۔ ان میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اس معاہدہ میں کیا ہے؛ انہیں ملازمت/کام کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، لیکن دخانی جہازوں پر بٹھاتے وقت انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
ان میں سے اکثر بھارتی نژاد لوگ یہ بات نہیں جان سکے کہ وہ اپنے گھر واپس نہیں لوٹیں گے اور وہ بالآخر دور دراز کے مقامات میں، جیسا کہ جزائر غرب الہند جیسے فیجی میں گنے کی کاشت کے لیے، قریب تر مقامات جیسا کہ برما اور سیلون میں بے وطن شہری کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے۔ ٹھیکہ مزدوروں کے ان گروپوں نے ٹمل زبان کے ‘C’ سے شروع ہونے والے دو الفاظ کو انگریزی لغت میں متعارف کرایا: وہ دو الفاظ کری(CURRY) اور کولیز (COOLIES) ہیں۔ خوش قسمتی سے ان میں سے کئی ایک پلانٹیشن والی معیشتوں میں بے وطنی کے مسئلہ کو حل کیا گیا ہے، لیکن یہاں پر سماجی معاشی اور سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے اقلیت اور اکثریت کے درمیان تناؤ جاری ہے۔
سری لنکا کے چائے کے باغات میں کام کرنے والے بھارتی ٹھیکہ مزدوروں کی بے وطنی کی صوتحال کو 1964 میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شستری اور سیلون کے وزیر اعظم سیریمو باندرا نائیکے کے درمیان طے پائے ایک معاہدہ کے ذریعہ حل کیا گیا۔ دونوں مالک نے وطن واپسی یا بے وطن شہریوں کو قبول کرنے پراتفاق کر لیا۔ 1980 تک بے وطنی کا مسئلہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔ لیکن سری لنکا میں، چائے کی باغات میں کام کرنے والے ان پسماندہ گروپوں کی معیار زندگی کی بہتری کے لیے بہت سا را کام کرنا اب بھی باقی ہے۔
اسی طرح، بنگلہ دیش اور میانمار نے 1993 میں ایک معاہدہ سے اتفاق کیا، لیکن بنگلا دیشی حکومت کو میانمار میں موجود مطلق العنان فوجی حکومت کے ساتھ معاملہ طئے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمیں میانمار کی ریاستی مشیر اعلیٰ سوکی کے ذریعہ 19 ستمبر 2017 کو اپنے خطاب کے دوران دیے گیے بیان کا خیر مقدم کرنا ہوگا، جس میں انہوں نے روہنگیا برادری کو قانونی طور پر قبول کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
اسی طرح، بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ذریعہ ظلم کی شکارروہنگیا برادری کا خیر مقدم کرنے اور اس وقت سخت آزمائشی حالات میں کوکس بازار کے علاقہ میں مختلف عارضی کیمپوں میں رہائش پذیرپناہ گزینوں کو مدد فراہم کرنے اور ان کی نگہداشت کرنے پر ان کی ستائش کرنی چاہیے۔
اس لیے بین الااقوامی ایجنسیوں کو چاہیے کہ وہ میانمار اوربنگلادیش دونوں ملکوں کی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ اس مسئلہ کو گفت و شیندد اور مذاکرات کے ذریعہ حل کریں جیسا کہ بھارت اور سیلون نے 1964 میں ایک معاہدہ کے ذریعہ کیا تھا۔
کسی بھی ایک فریق کو درپیش دہشت کے مقابلہ میں مدد کے لیے ایک وسیلہ کے طور پر تشدد کی تائید کرنا اور اس مسئلہ کو بدھ مت کے ماننے والوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اور فرقہ وارانہ عقائد کے تصادم کا نام دینا، تباہ کُن ہوگا۔ اس مسئلہ کو بے وطنی اور ناُمیدی کے نقطہ نظر سے دیکھنا ہوگا، جس کے نتیجہ میں ناقص معاشی حالات پیدا ہوتے ہیں۔ مہاجر کے طور پر کئی آفریقی ممالک کو پار کرتے والے یوروپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی حالت زار اس کی ایک بہترین زندہ مثال ہے۔
درست تشخیص نصف علاج ہے، بشرطیکہ کے حقائق پر مبنی اسباب اور اثرات کو تسلیم کیا جائے۔ بنگلہ دیش اور میانمار میں موجود برسر اقتدار دونوں خواتین میں اپنے اپنے ممالک کی پائیدار امن اور ترقی کے لیے تخلیقی اور اختراعی حل تلاش کرنے کی صلاحیتیں موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک موافق ماحول تخلیق کیا جائے، جو نسلی مذہبی اختلافات کی بنیاد پر جذباتی کارروائیوں اور تعصب و امتیاز کی اشتعال انگیزی کو بڑھاوا نہ دے۔
*مضمون نگار سنگاپور میں واقع فائنانس، پروفیشنل اینڈ مینیجمنٹ گروپ، یو این آئی گوبل یونین ایشیا پیسیفک کے علاقائی دائریکٹر ہیں۔ [آئی ڈی این- اِنڈپٹ نیوز– 25 ستمبر 2017]
تصویر : کٹوپالونگ پناہ گزیں کیمپ کوکس بازار بنگلا دیش۔ یہ کیمپ ان تین کمپوں میں سے ایک ہے جہاں پر برما میں واقع ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سے فرار ہونے والی روہنگیا برادری کے 300,000 لوگ رہائش پذیر ہے۔ بشکریہ: ویکی میڈیا کامنس